Top Menu

Sunday, September 29, 2013

Developments

ایجادیں کیسے ہوئیں؟

ہر کام کی طرح کسی چیز کی ایجاد یا دریافت میں بھی علم، ارادے اور ہمت کی ضرورت ہے۔
درختوں سے پھل ٹپکا ہی کرتے ہیں اور ہم روز پھلوں کو زمین پر گرتے دیکھتے ہیں۔ کبھی اس طرف دھیان بھی نہیں جاتا مگر بعض عجیب و غریب باتیں اس طرح ایکا ایکی دریافت ہوجاتی ہیں کہ پہلے سے ان کا سان گمان بھی نہیں ہوتا۔ لیکن ان کو سمجھنا، ان سے کام لینا اور ان کے ذریعے خدا کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا بغیر علم، عقل اور تجربے کے ممکن نہیں۔
شیشے اور کانچ کے ہزارہا قسم کے برتنوں، جھاڑ، فانوس وغیرہ کا کچھ عرصہ پہلے کوئی نام بھی نہ جانتا تھا۔ اتفاق کی بات
اہل فونشیا کے ایک قافلے نے رات کے وقت ایک جنگل میں پڑاؤ کیا۔ کھانے پکانے اور سردی سے بچاؤ کے لیے آگ سلگائی۔
صبح کوچلنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جس جگہ انہوں نے آگ جلائی تھی وہاں زمین پر کانچ کے بڑے بڑے ٹکڑے سورج کی روشنی میں چمک رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس زمین میں کانچ کے ذرے تھے جو آگ کی گرمی سے پگھل کر کانچ کی شکل میں جم گئے۔ وہ لوگ ان ٹکڑوں کو تحفہ سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اسی دن سے دنیا کانچ یا شیشے کے نام سے واقف ہوئی۔ پھر کیا تھا، آہستہ آہستہ ہر جگہ شیش محلوں میں آئینہ بندی ہونے لگی اور ہزاروں قسم کے اوزار اور آرائش کی چیزیں بننے لگیں۔
ایک اور سائنس دان جارج اسٹیفن سن ایک رات اکیلا اپنے کمرے میں بیھٹا چائے کے لیے پانی گرم کررہا تھا۔ اتفاقاً پانی ضرورت سے زیادہ کھول گیا اور کیتلی کا ڈھکنا بھاپ کے زور سے اچھل اچھل کر اوپر ہوا میں ناچنے لگا۔ پہلے پہل تو وہ گھبرایا لیکن رفتہ رفتہ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی کہ یہ بھاپ کی طاقت کا کرشمہ ہے۔ پھر کیا تھا، اس نے بھاپ کو اپنے قبضے میں کرلیا۔ اسی بھاپ نے ایک طرف پانی پر دخانی جہاز اور دوسری طرف خشکی پر مشینیں چلادیں۔ اسی جارج اسٹیفن سن نے اپنی انجینئری کے کمال سے 1815ء میں نہ صرف ریلوے انجن بناکر کھڑا کردیا بلکہ 1825ء میں میلوں تک ریل بھی دوڑا دی۔
امریکا کا تھامس ایڈیسن دنیا کا سب سے بڑا موجود شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے بجلی اور بجلی سے متعلق بہت سی ایجادیں کی تھیں اور بجلی کے دیو کو قابو میں کرنے کا خیال بھی اس کے ذہن میں اتفاقاً پیدا ہوا تھا۔ ٹرہ کو دیکھ کر ساؤنڈ بکس اور گرامو فون کی ایجاد کا خیال بھی اسی بیدار مغز شخص کو آیا۔ ٹرہ اس جھلی منڈھے ہوئے کھلونے کو کہتے ہیں جس میں تانت باندھ کر دوسرا سرا سرکنڈے پر گھمانے سے مینڈک کے ٹرانے کی سی آواز نکلتی ہے۔ بعد میں لاؤڈ اسپیکر اسی اصول کو سامنے رکھ کر بنایا گیا۔
انیسویں صدی کی سب سے بڑی اور سب سے مفید ایجاد بھی ایک اتفاقی واقعے سے ہوئی۔ جرمنی کا ایک سائنس دان رونتجن چمکنے والی دھاتوں کے متعلق کچھ تجربے کررہا تھا۔ اس نے ایک روز تجربہ کرتے کرتے ایک دھات کو سیاہ کپڑے سے ڈھانک دیا اور کسی کام میں مصروف ہوگیا۔
اسی میز پر فوٹو گرافی کی ایک پلیٹ اور اس کے قریب چھوٹی سی ایک صلیب پڑی تھی۔ رونتجن کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ سیاہ پردے میں سے کچھ شعاعیں نکل کر فوٹو گرافی کی پلیٹ پر اثر کررہی ہیں اور اس پلیٹ پر صلیب کی تصویر بھی آگئی ہے۔ اس نے ان حیرت انگیز شعاعوں کی اصلیت معلوم کرنا شروع کردی۔ چونکہ اس قسم کی شعاعوں کا پہلے علم نہ تھا، اس لیے اس کا نام اس نے ایکس رے یعنی لاشعاع رکھا۔ ان شعاعوں کی ایک خاصیت یہ بھی معلوم ہوئی کہ یہ اکثر غیر شفاف چیزوں میں سے گزر جاتی ہیں۔ انسان کی ہڈیوں کا فوٹو ان ہی شعاعوں کی مدد سے لیا جاتا ہے۔
بارود عربوں کی ایجاد ہے۔ اس سے وہ پہاڑوں اور سرنگوں کو اڑانے میں مدد لیتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے بیٹے نورالدین جہانگیر بادشاہ کی چہیتی ملکہ نور جہاں نے گلاب کا عطر ایجاد کیا تھا۔ اکبر کے زمانے میں حکیم علی مشہور طبیب اور ریاضی دان تھا۔ اس نے ایک عجیب و غریب حوض بنایا تھا جس کے پہلو میں ایک کمرا تھا۔ جس کا رستہ حوض کے پانی کے اندر سے تھا، لیکن کچھ اس طرح بنایا گیا تھا کہ حوض کا پانی کمرے کے اندر نہیں آسکتا تھا۔
اکبر ہی کے زمانے میں ایک چلی بنائی گئی تھی جو خودبخود چلتی تھی۔ اکبر کو چوگان بازی کا شوق تھا، اس لیے ایسی چیزیں ایجاد کی گئیں جو رات کو شعلے کی طرح چمکتی تھیں تاکہ اندھیری رات میں چوگان کھیلا جاسکے۔ اس بادشاہ کے زمانے میں مختلف قسم کی توپیں بھی ایجاد کی گئیں۔